EN हिंदी
انقلاب دہر رک رک کر جواں بنتا گیا | شیح شیری
inqilab-e-dahr ruk ruk kar jawan banta gaya

غزل

انقلاب دہر رک رک کر جواں بنتا گیا

کلیم احمدآبادی

;

انقلاب دہر رک رک کر جواں بنتا گیا
جو سبک سر تھا وہی سنگ‌ راں بنتا گیا

نغمۂ دل جب بڑھا آہ و فغاں بنتا گیا
آسماں اک اور زیر آسماں بنتا گیا

جانے کیا بھر دی ہیں اس نے اس چمن میں شوخیاں
جو بھی آیا وہ چمن کا رازداں بنتا گیا

ہر نفس کو اپنی منزل کا پتہ ملتا نہیں
جو جہاں ٹھہراؤ ہیں اک کارواں بنتا گیا

سرد آہوں کا تصرف ہو تو سوز دل کہاں
دل سے جو شعلہ اٹھا وہ بھی دھواں بنتا گیا

بے سبب ہوتا نہیں جذبات دل کا ولولہ
جس نے سمجھا آئی اپنا رازداں بنتا گیا

کچھ بہاروں میں خزاں ہے کچھ خزاں میں ہے بہار
پھول مرجھائے تو غنچہ گلستاں بنتا گیا

آدمی کی اصلیت کو آدمی سمجھا نہیں
ایک قطرہ تھا جو بحر بیکراں بنتا گیا

ہم تو بیٹھے ہی رہے اپنی اسیری کو لئے
بننے والا کام بے وہم و گماں بنتا گیا

میرؔ و غالبؔ سے بڑھے تو حضرت اقبالؔ تک
شغل شعر و شاعری کا جاوداں بنتا گیا

دہر میں یہ بھی تو ہیں قانون فطرت کے اصول
جو نظر سے گر گیا وہ دلستاں بنتا گیا

برق کی سرگرمیاں تسنیم پھر بھی اے کلیمؔ
بجلیاں گرتی رہیں اور آشیاں بنتا گیا