انکار کسے، اوج قمر تک نہیں پہنچا
انسان مگر دل کے نگر تک نہیں پہنچا
اٹھا تو ہر اک جھکتی ہوئی شاخ کی جانب
ہاتھ اپنا کسی شاخ ثمر تک نہیں پہنچا
طوفان کی زد پر ہے اگر شہر اسے کیا
وہ خوش ہے کہ پانی ابھی گھر تک نہیں پہنچا
ہر راہ لئے جاتی ہے اک بند گلی تک
رستہ کوئی اس شوخ کے در تک نہیں پہنچا
دم بھرتا رہا اپنی وفاؤں کا جو مخلصؔ
وہ شخص تو لینے کو خبر تک نہیں پہنچا
غزل
انکار کسے، اوج قمر تک نہیں پہنچا
مخلص وجدانی