انکار کی لذت سے نہ اقرار جنوں سے
یہ ہجر کھلا مجھ پہ کسی اور فسوں سے
یہ جان چلی جائے مگر آنچ نہ آئے
آداب محبت پہ کسی حرف جنوں سے
عجلت میں نہیں ہوگی تلاوت ترے رخ کی
آ بیٹھ مرے پاس ذرا دیر سکوں سے
اے یار کوئی بول محبت سے بھرا بول
کیا سمجھوں بھلا میں تری ہاں سے تری ہوں سے
دیوار کا سایہ تو مجھے مل نہیں پایا
بیٹھا ہوں تری یاد میں اب لگ کے ستوں سے
تجھ سے تو مری روح کا بندھن تھا مرے یار
انجان رہا تو بھی مرے حال دروں سے
غزل
انکار کی لذت سے نہ اقرار جنوں سے
مبشر سعید