انہی صبحوں میں وہ اک صبح نوا یاد کرو
پھول کھلنے کی دعا ہے تو دعا یاد کرو
اک تو بارش کے اترنے کی تھی اپنی آواز
اک وہ کچھ اور تھی پتوں کی صدا یاد کرو
اب وہ رت ہے کہ دریچوں میں نہ ہم ہیں نہ چراغ
کتنے اطراف سے آتی تھی ہوا یاد کرو
اب تو اس خواب کی خوشبو بھی کہیں ہو کہ نہ ہو
ہم وہ کس موج میں تھے چشم کشا یاد کرو
صبح ہونے کی ہے منت تو وہ مانو رفعتؔ
پھول کھلنے کی دعا ہے تو دعا یاد کرو
غزل
انہی صبحوں میں وہ اک صبح نوا یاد کرو
رفعت عباس