EN हिंदी
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے | شیح شیری
in sahme hue shahron ki faza kuchh kahti hai

غزل

ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

ناصر کاظمی

;

ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشی آواز نما کچھ کہتی ہے

سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوتے ہیں
اور دور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے

جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں
کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے

کبھی بھور بھئے کبھی شام پڑے کبھی رات گئے
ہر آن بدلتی رت کی ہوا کچھ کہتی ہے

مہمان ہیں ہم مہمان سرا ہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے

بیدار رہو بیدار رہو بیدار رہو
اے ہم سفرو آواز درا کچھ کہتی ہے

ناصرؔ آشوب زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلق خدا کچھ کہتی ہے