ان لوگوں میں رہنے سے ہم بے گھر اچھے تھے
کچھ دن پہلے تک تو سب کے تیور اچھے تھے
دیکھ رہا ہے جس حیرت سے پاگل کر دے گا
آئینے سے ڈر لگتا ہے پتھر اچھے تھے
نادیدہ آزار بدن کو غارت کر دے گا
زخم جو دل میں جا اترے ہیں باہر اچھے تھے
رات ستاروں والی تھی اور دھوپ بھرا تھا دن
جب تک آنکھیں دیکھ رہی تھیں منظر اچھے تھے
آخر کیوں احسان کیا ہے زندہ رکھنے کا
ہم جو مر جاتے تو بندہ پرور اچھے تھے
آنکھیں بھر آئی ہیں فیصلؔ ڈوب گئے ہیں لوگ
ان میں کچھ ظالم تھے لیکن اکثر اچھے تھے
غزل
ان لوگوں میں رہنے سے ہم بے گھر اچھے تھے
فیصل عجمی