ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی
خیر اگر آپ بضد ہیں تو سویرا ہی سہی
اے غم زیست بلاتی ہیں مہکتی زلفیں
آج کی رات یہ پر نور اندھیرا ہی سہی
دل میں جو آگ لگی ہے وہ کہاں بجھتی ہے
راہ شاداب سہی ابر گھنیرا ہی سہی
ہوشیار اہل خرد خاک نشیں آ پہنچے
آپ کے زعم کا افلاک پہ ڈیرا ہی سہی
تو پریشان نہ ہو خالق فردوس بریں
یہ جہنم یہ جہاں آج سے میرا ہی سہی
کتنی یادیں ہیں کہ ناگن کی طرح ڈستی ہیں
نورؔ ان گلیوں کا اک آخری پھیرا ہی سہی
غزل
ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی
نور بجنوری