EN हिंदी
ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی | شیح شیری
in ghaTaon mein ujale ka basera hi sahi

غزل

ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی

نور بجنوری

;

ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی
خیر اگر آپ بضد ہیں تو سویرا ہی سہی

اے غم زیست بلاتی ہیں مہکتی زلفیں
آج کی رات یہ پر نور اندھیرا ہی سہی

دل میں جو آگ لگی ہے وہ کہاں بجھتی ہے
راہ شاداب سہی ابر گھنیرا ہی سہی

ہوشیار اہل خرد خاک نشیں آ پہنچے
آپ کے زعم کا افلاک پہ ڈیرا ہی سہی

تو پریشان نہ ہو خالق فردوس بریں
یہ جہنم یہ جہاں آج سے میرا ہی سہی

کتنی یادیں ہیں کہ ناگن کی طرح ڈستی ہیں
نورؔ ان گلیوں کا اک آخری پھیرا ہی سہی