ان دنوں تیز بہت تیز ہے دھارا میرا
دونوں جانب سے ہی کٹتا ہے کنارا میرا
سرد ہو جاتی ہے ہر آگ بالآخر اک دن
دیکھیے زندہ ہے کب تک یہ شرارہ میرا
نفع در نفع سے بھی کیا کبھی زائل ہوگا
روح پر بوجھ بنا ہے جو خسارہ میرا
ہے یہ عالم کہ نہیں خود کو میسر میں بھی
کیسے اب ہوتا ہے مت پوچھ گزارا میرا
یہی چکر مجھے مرکز سے الگ رکھتا ہے
خوش نصیبی ہے کہ گردش میں ہے تارا میرا
میری مجبوری ہے لفظوں میں نہیں کہہ سکتا
اور سمجھتا ہی نہیں کوئی اشارہ میرا
خاص نمبر کئی باقی ہیں مرتب کرنے
ہے جہاں تیرا بس اک عام اشارہ میرا
لوگ حیرت ہے سمجھتے ہیں مجھے غیرت مند
بات بے بات جو چڑھ جاتا ہے پارہ میرا
وہ نظر ہو جو مجھے چاک ہی کر ڈالے سہیلؔ
ورنہ کھلنے کا نہیں رمز نظارہ میرا
غزل
ان دنوں تیز بہت تیز ہے دھارا میرا
سہیل اختر