ان دنوں میں غربتوں کی شام کے منظر میں ہوں
میری چھت ٹوٹی پڑی ہے دوسروں کے گھر میں ہوں
آئے گا اک دن مرے اڑنے کا موسم آئے گا
بس اسی امید پر میں اپنے بال و پر میں ہوں
جسم کی رعنائیوں میں ڈھونڈتے ہو تم مجھے
اور میں کب سے تمہاری روح کے پیکر میں ہوں
دیکھتے ہیں سب نظر آتی ہوئیں اونچائیاں
کون دیکھے گا مجھے بنیاد کے پتھر میں ہوں
آپ کیا روکیں گے اظہار صداقت سے مجھے
آپ کو دنیا کا ڈر ہے میں خدا کے ڈر میں ہوں
اے زمانے کل مری ٹھوکر سے بچنا ہے تجھے
اتفاقاً آج ویسے میں تری ٹھوکر میں ہوں
موت بن جاؤں گا تیری اے ستم گر دیکھنا
مجھ پہ جو خنجر اٹھے گا میں اسی خنجر میں ہوں
نفرتوں کی اک دہکتی آگ ہے چاروں طرف
میں فساد شہر کے جلتے ہوئے منظر میں ہوں
سوچتا ہوں یہ بھی کیسی بد نصیبی ہے ظفرؔ
میں بہادر ہو کے بھی ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
غزل
ان دنوں میں غربتوں کی شام کے منظر میں ہوں
ظفر کلیم