ان چٹختے پتھروں پر پاؤں دھرنا دھیان سے
ڈھل چکی ہے شام وادی میں اترنا دھیان سے
جامد و ساکت سہی دیوار و در بہرے نہیں
گھر کی تنہائی ہو پھر بھی بات کرنا دھیان سے
کان مت دھرنا کسی آواز پر کیسی بھی ہو
کوئی روکے بھی تو رستے میں ٹھہرنا دھیان سے
دیکھنا سایہ کہیں کوئی تعاقب میں نہ ہو
شہر کی ویران گلیوں سے گزرنا دھیان سے
راہ میں دیکھو کوئی منظر تو رکھنا ذہن میں
پھر کہیں فرصت ملے تو رنگ بھرنا دھیان سے
کتنے سورج تم سے پہلے اس سفر میں جل بجھے
اس جہان تیرہ خاطر پر ابھرنا دھیان سے
وقت کے ساتھ اپنے اندازے غلط نکلے بشیرؔ
کس قدر مشکل ہے پیاروں کا اترنا دھیان سے
غزل
ان چٹختے پتھروں پر پاؤں دھرنا دھیان سے
بشیر احمد بشیر