ان آنکھوں میں کئی سپنے کئی ارمان تھے لیکن
سکوت لب کی تہہ میں کس قدر طوفان تھے لیکن
عقیدت کب تھی اسناد شعور و فہم کی قائل
ہجوم شہر کا کچھ پارسا ایمان تھے لیکن
رسائی منزل مقصود تک ممکن سی لگتی تھی
بظاہر آگہی کے مرحلے آسان تھے لیکن
لگا کر ان کو دل سے میں سفر کرتا رہا برسوں
وہ کچھ لمحے جو میرے حوصلوں کی جان تھے لیکن
اگرچہ کچھ نگاہیں تیر برساتی رہیں پیہم
اگرچہ کچھ روئیے باعث نقصان تھے لیکن
قلم ان پر اٹھانا چاہتا تھا میں بہ ہر صورت
مرے چاروں طرف بکھرے ہوئے عنوان تھے لیکن
امور سلطنت تکرار آداب شہنشاہی
مرصع خواب گاہیں مسندیں دالان تھے لیکن
یہ تحریریں یہ تصویریں یہ سب قصے یہ سب چہرے
مرے گزرے ہوئے ایام کی پہچان تھے لیکن
کبھی ہم در بدر بھی ماں کی اقلیم محبت کے
سریر آرائی مطلق بخت ور سلطان تھے لیکن

غزل
ان آنکھوں میں کئی سپنے کئی ارمان تھے لیکن
سرور ارمان