ان آنکھوں میں بن بولے بھی مادر زاد تقاضا ہے
خواہش خواہش بکنے والا ملبوساتی کیڑا ہے
اس کے چاروں اور پھریں کیا اس کے اندر اتریں کیا
اپنے ہی اندر اترنے کا کیا کچھ کم پچھتاوا ہے
سناٹے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر مر جاؤ
چیخوں کا ظالم دروازہ قد سے کافی اونچا ہے
گلیوں گلیوں خاک اڑا لی ہر دروازہ جھانک آئے
تب جا کر یہ خوابوں جیسا دھندلا پن ہاتھ آیا ہے
کتنے ہی چاہے جسموں کی لاشیں منظر منظر ہیں
لیکن ان گن خوشیوں کا بھی آنکھوں ہی سے رشتہ ہے

غزل
ان آنکھوں میں بن بولے بھی مادر زاد تقاضا ہے
فضل تابش