امتحاں لینے چلا ہے مری بینائی کا
اس کو اندازہ نہیں بات کی گہرائی کا
اس لئے روک لیا اٹھا ہوا ہاتھ ہم نے
اس کے ہر وار میں انداز تھا پسپائی کا
خواب لکھتی رہیں آنکھیں در و بام شب پر
صبح اک پہلو دکھاتی رہی سچائی کا
اجنبی ہو گئے اک چھت تلے رہنے والے
کچھ تو کفارہ ادا کرنا تھا یکجائی کا
میں نے مانگا تھا ذرا دیر کو چہرہ اپنا
آئنہ دے گیا اک زخم شناسائی کا
بانوئے شام ترے سرمئی آنچل سے پرے
کوئی ساتھی ہے مری بادیہ پیمائی کا
اب چٹک یا نہ چٹک غنچۂ خاطر میں نے
راستہ چھوڑ دیا دیکھنا پروائی کا
اس سے مل کر ہوئی ہر بار محبت تازہ
اس نے بدلا نہیں انداز پذیرائی کا

غزل
امتحاں لینے چلا ہے مری بینائی کا
نرجس افروز زیدی