امروز کی کشتی کو ڈبونے کے لیے ہوں
کل اور کسی رنگ میں ہونے کے لیے ہوں
تو بھی ہے فقط اپنی شہادت کا طلب گار
میں بھی تو اسی درد میں رونے کے لیے ہوں
جینے کا تقاضا مجھے مرنے نہیں دیتا
مر کر بھی سمجھتا ہوں کہ ہونے کے لیے ہوں
ہاتھوں میں مرے چاند بھی لگتا ہے کھلونا
خوابوں میں فلک رنگ سمونے کے لیے ہوں
ہر بار یہ شیشے کا بدن ٹوٹ گیا ہے
ہر بار نئے ایک کھلونے کے لیے ہوں
پردیس کی راتوں میں بہت جاگ چکا میں
اب گھر کا سکوں اوڑھ کے سونے کے لیے ہوں
سینے میں کوئی زخم کہ کھلنے کے لیے ہے
آنکھوں میں کوئی اشک کہ رونے کے لیے ہوں
سادہ سی کوئی بات نہیں بھوک شکم کی
ایمان بھی روٹی میں سمونے کے لیے ہوں
وہ دشت و بیابان میں اظہار کا خواہاں
میں اپنے چمن زار میں رونے کے لیے ہوں
غاروں کا سفر ہے کہ مکمل نہیں ہوتا
میں اپنی خبر آپ ہی ڈھونے کے لیے ہوں
سورج کو نکلنے میں ذرا دیر ہے احمدؔ
پھر ذات کا ہر رنگ میں کھونے کے لیے ہوں
غزل
امروز کی کشتی کو ڈبونے کے لیے ہوں
احمد شناس