امکان کھلے در کا ہر آن بہت رکھا
اس گنبد بے در نے حیران بہت رکھا
آباد کیا دل کو ہنگامۂ حسرت سے
صحرائے تگ و دو کو ویران بہت رکھا
اک موج فنا تھی جو روکے نہ رکی آخر
دیوار بہت کھینچی دربان بہت رکھا
تاروں میں چمک رکھی پھولوں میں مہک رکھی
اور خاک کے پتلے میں امکان بہت رکھا
جلتی ہوئی بتی سے گل پھوٹ نکلتے ہیں
مشکل سے بھی مشکل کو آسان بہت رکھا
کچھ ہے جو نہیں ہے بس وہ کیا ہے خدا جانے
یوں اپنی سمجھ سے ہم سامان بہت رکھا
مشکوک ہے اب ہر شے آنکھوں میں سہیلؔ اپنی
ہم نے بت کافر پر ایمان بہت رکھا
غزل
امکان کھلے در کا ہر آن بہت رکھا
سہیل احمد زیدی