علاج کوئی جہاں کا نہ سازگار آیا
کسی طرح بھی نہ دل کو مرے قرار آیا
پیام موت کا لے کر خیال یار آیا
اجل کی گود میں ہی زیست کو قرار آیا
نگاہ لطف کے طالب ہیں جو وہ ہیں کم ظرف
ہمیں تو الٹا جفاؤں پہ تیری پیار آیا
یہ کس کی یاد سے روشن ہوئی مری دنیا
یہ کس کا نام مرے لب پہ بار بار آیا
خوشی سے بڑھ کے قدم میرے آبلوں نے لئے
کوئی جو راہ محبت میں خار زار آیا
نہ کوئی لوٹ کے آیا دیار الفت سے
جو کوئی آیا بھی نیرؔ بہ حال زار آیا

غزل
علاج کوئی جہاں کا نہ سازگار آیا
نیرآثمی