علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا
عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا
ابھی مرتے ہیں ہم جینے کا طعنہ پھر نہ دینا تم
یہ طعنہ ان کو دینا جن سے ایسا ہو نہیں سکتا
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
دم آخر مری بالیں پہ مجمع ہے حسینوں کا
فرشتہ موت کا پھر آئے پردا ہو نہیں سکتا
نہ برتو ان سے اپنائیت کے تم برتاؤ اے مضطرؔ
پرایا مال ان باتوں سے اپنا ہو نہیں سکتا
غزل
علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
مضطر خیرآبادی