EN हिंदी
الٰہی خیر جو شر واں نہیں تو یاں بھی نہیں | شیح شیری
ilahi KHair jo shar wan nahin to yan bhi nahin

غزل

الٰہی خیر جو شر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

آغا حجو شرف

;

الٰہی خیر جو شر واں نہیں تو یاں بھی نہیں
تأمل اس میں اگر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

کچھ ان گھر سے نہیں کم ہمارا خانۂ دل
جو آدمی کا گزر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

وہ جان لیتے ہیں ہم ان پہ جان دیتے ہیں
نصیحتوں کا اثر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

مرے مٹیں گے ہم اے دل یہی جو چشمک ہے
صفائی مد نظر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

کرے گا ناز تڑپنے میں ہم سے کیا بسمل
کمیٔ درد جگر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

وہ تیغ زن ہیں تو ہم بھی جگر پہ روکیں گے
جو احتیاج سپر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

وہ بے خبر ہیں جہاں سے تو ہم ہیں خود رفتہ
زمانے کی جو خبر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

خجل ہیں گالوں سے ان کے ہمارے داغوں سے
فروغ شمس و قمر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

تم آئنے میں یہ کس نازنیں سے کہتے تھے
بغور دیکھ کمر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

شب مزار سے کچھ کم نہیں ہے شام فراق
اگر اسیر سحر واں نہیں تو یاں بھی نہیں

وہ گالی دیں گے تو بوسہ شرفؔ میں لے لوں گا
لحاظ پاس اگر واں نہیں تو یاں بھی نہیں