EN हिंदी
الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد | شیح شیری
ila ya shah-e-KHuban kijiye shad

غزل

الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد

ماتم فضل محمد

;

الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد
ہوئے جاتے ہیں عاشق غم سے برباد

ہمیں تم یاد ہو ہر لحظہ لیکن
ہماری بھی کبھی تو کیجیے یاد

گرفتار بلا بالائے تو یار
غم دوراں سے ہیں جوں سرو آزاد

اگر لیلیٰ ہے تو مجنوں ہیں ہم
وگر شیریں ہے تو ہم ہیں فرہاد

وہی ایراد کر سکتا ہے آخر
کیا ہے جس نے اول ہم کو ایجاد

کسی شے کو درست و چست دائم
نہ دیکھا در جہان سست بنیاد

شعر ہے اشک چشم و لخت دل سے
اٹھایا چاہئے ہم آب و ہم زاد

گل تر خار سے سمجھیں بتر تر
جو دیکھیں عندلیباں روتے صیاد

گلوئے گل تو پکڑے آخر کار
گئے کب رائیگاں بلبل کے فریاد

عبث کرتے ہو بہر ترک تکرار
عزیزو ہوں میں دخت رز کا داماد

نہیں جس روز میعاد آمد یار
وہی ہم جانتے ہیں روز میعاد

بہت فرزانہ تھے دیوانہ ہم کو
بنائے شوخ طفلان پریزاد

حمل مریخ معشوقوں نے میرا
کیا ہے سر جدا از تیغ بیداد

ہزاراں شکر ملک سندھ میں بھی
مرا مسکن ہے شہر حیدرآباد

جناب حیدر صفدر سے ماتمؔ
طلب اوقات مشکل میں کر امداد