EN हिंदी
اکا دکا شاذ و نادر باقی ہیں | شیح شیری
ikka dukka shaz-o-nadir baqi hain

غزل

اکا دکا شاذ و نادر باقی ہیں

شمیم عباس

;

اکا دکا شاذ و نادر باقی ہیں
اپنی آنکھیں جن چہروں کی عادی ہیں

ہم بولائے ان کو ڈھونڈا کرتے ہیں
سارے شہر کی گلیاں ہم پر ہنستی ہیں

جب تک بہلا پاؤ خود کو بہلا لو
آخر آخر سارے کھلونے مٹی ہیں

کہنے کو ہر ایک سے کہہ سن لیتے ہیں
صرف دکھاوا ہے یہ باتیں فرضی ہیں

لطف سوا تھا تجھ سے باتیں کرنے کا
کتنی باتیں نوک زباں پہ ٹھہری ہیں

تو اک بہتا دریا چوڑے چکلے پاٹ
اور بھی ہیں لیکن نالے برساتی ہیں

سارے کمرے خالی گھر سناٹا ہے
بس کچھ یادیں ہیں جو طاق پہ رکھی ہیں