اک ذرا سی چاہ میں جس روز بک جاتا ہوں میں
آئنہ کے سامنے اس دن نہیں آتا ہوں میں
رنج غم اس سے چھپاتا ہوں میں اپنے لاکھ پر
پڑھ ہی لیتا ہے وہ چہرہ پھر بھی جھٹلاتا ہوں میں
قرض کیا لایا میں خوشیاں زندگی سے ایک دن
روز کرتی ہے تقاضہ اور جھنجھلاتا ہوں میں
حوصلہ تو دیکھیے میرا غزل کی کھوج میں
اپنے ہی سینے میں خنجر سا اتر جاتا ہوں میں
دے سزائے موت یا پھر بخش دے تو زندگی
کش مکش سے یار تیری سخت گھبراتا ہوں میں
مون وہ پڑھتا نہیں اور شبد بھی سنتا نہیں
جو بھی کہنا چاہتا ہوں کہہ نہیں پاتا ہوں میں
خواب سچ کرنے چلا تھا گاؤں سے میں شہر کو
نیند بھی کھو کر یہاں آلوکؔ پچھتاتا ہوں میں

غزل
اک ذرا سی چاہ میں جس روز بک جاتا ہوں میں
آلوک یادو