اک زمیں دوز آسماں ہوں میں
ہاں مری جان بے نشاں ہوں میں
مجھ کو توحید ہو چکی ازبر
لا مکاں کا نیا مکاں ہوں میں
دست قدرت کی شاہکاری کا
خود میں آباد اک جہاں ہوں میں
کب سے آمادہ سجدہ ریزی پر
آب و گل ہی کے درمیاں ہوں میں
موت سے کہیے آئے فرصت میں
ابھی مصروف امتحاں ہوں میں
کس طرح سے بنے زیادہ بات
ذرۂ کن ہوں کم زباں ہوں میں
لو سے بہتی ہوئی ضیا ہو تم
لو سے اٹھتا ہوا دھواں ہوں میں
جیسے تو میرا راز پنہاں ہے
ایسے ہی تیرا رازداں ہوں میں
جس سے لرزاں ہے پتھروں کا وجود
آئینہ زاد وہ فغاں ہوں میں
موت تو کب کی مر چکی لیکن
بزم امکاں میں جاوداں ہوں میں
تم تسلسل نئی بہاروں کا
اور اجڑی ہوئی خزاں ہوں میں
تیری یادوں کا اس میں دوش نہیں
بے سبب آج نیم جاں ہوں میں
غزل
اک زمیں دوز آسماں ہوں میں
ندیم سرسوی