EN हिंदी
اک یہی اب مرا حوالہ ہے | شیح شیری
ek yahi ab mera hawala hai

غزل

اک یہی اب مرا حوالہ ہے

نبیل احمد نبیل

;

اک یہی اب مرا حوالہ ہے
روح زخمی ہے جسم چھالا ہے

سیکڑوں بار سوچ کر میں نے
تیرے سانچے میں خود کو ڈھالا ہے

کھنچنے والا ہے آسماں سر سے
حادثہ یہ بھی ہونے والا ہے

اک خدا ترس موج نے مجھ کو
ساحلوں کی طرف اچھالا ہے

غالب آئی ہوس محبت پر
آرزوؤں کا رنگ کالا ہے

اک طرف جام عافیت کے ہیں
اک طرف زہر کا ہی پیالہ ہے

کار دنیا کی آرزو نے نبیلؔ
مجھ کو سو الجھنوں میں ڈالا ہے