EN हिंदी
اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی | شیح شیری
ek yaad thi kisi ki jo baadal bani rahi

غزل

اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی

مرتضیٰ برلاس

;

اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی
صحرا نصیب کے لیے چھاؤں گھنی رہی

وہ نقش ہوں جو بن کے بھی اب تک نہ بن سکا
وہ بات ہوں جو کہہ کے بھی نا گفتنی رہی

پتھر کا بت، سمجھ کہ یہ کس شے کو چھو لیا
برسوں تمام جسم میں اک سنسنی رہی

اس جان گل کو دیکھتے کیسے کہ آج تک
اک رنگ و بو کی سامنے چادر تنی رہی

وہ دھند تھی کہ کچھ بھی دکھائی نہ دے سکا
وہ حبس تھا کہ کیفیت جانکنی رہی