اک وہ بھی دن تھے تجھ سے مرا رابطہ نہ تھا
سنجیدگی سے تیرے لیے سوچتا نہ تھا
نفرت ملی تو زعم وفا ٹوٹ ٹوٹ کر
بکھرا کچھ اس طرح کہ کوئی واسطہ نہ تھا
کمرے میں پھیلتی ہی گئی روشنی کی لہر
کرنوں کا جال تھا کہ کہیں ٹوٹتا نہ تھا
دیکھا تجھے تو چاند بھی پیڑوں میں چھپ گیا
ویسے تو شہر بھر میں کوئی چاند سا نہ تھا
وہ اپنی ذات میں ہی مقید رہا نیازؔ
سب دیکھتے تھے اس کو کوئی ڈھونڈھتا نہ تھا
غزل
اک وہ بھی دن تھے تجھ سے مرا رابطہ نہ تھا
نیاز حسین لکھویرا