اک ترا درد ہے تنہائی ہے رسوائی ہے
تین لفظوں میں مری زیست سمٹ آئی ہے
زندگی الجھے ہوئے خواب کا ابہام کبھی
کبھی اس شوخ کی اٹھتی ہوئی انگڑائی ہے
کتنے پیچیدہ ہیں جذبات غزل کیا کہیے
خامہ حیران ادھر سلب یہ گویائی ہے
ہو وہ پھولوں کا تبسم کہ غزالوں کا خرام
جو ادا آئی ہے تجھ میں وہ نکھر آئی ہے
سرد سی عقل کے ہم راہ رواں ہیں مانیؔ
تابش عشق میسر میسر ہی نہیں آئی ہے

غزل
اک ترا درد ہے تنہائی ہے رسوائی ہے
سلیمان احمد مانی