EN हिंदी
اک طلسم عجب نما ہوں میں | شیح شیری
ek tilism-e-ajab-numa hun main

غزل

اک طلسم عجب نما ہوں میں

دتا تریہ کیفی

;

اک طلسم عجب نما ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ہوں میں

ہے زوال اپنا اک نشان کمال
بدو کی طرح گھٹ گیا ہوں میں

کیا نشاں پوچھتے ہو تم میرا
رہ گم گشتہ کا پتا ہوں میں

ہے یہ حیرت کہ ہوں تجسم درد
اور ہر درد کی دوا ہوں میں

میری شہرت ہے میری گمنامی
قوت بازوئے ہما ہوں میں

رہ الفت میں نقش پا کی طرح
خاک ہو ہو کے مٹ گیا ہوں میں

ساغر عشق کر گیا بے خود
ہوش کس کو نہیں ہوں یا ہوں میں

خاک سمجھو تم آبرو میری
درد اعزاز کی بہا ہوں میں

دم غنیمت ہے سالکو میرا
جرس دور کی صدا ہوں میں

ہوں صراحی میں بادۂ احمر
اور مے سرخ میں نشہ ہوں میں

جس طرح سے کنول ہو پانی میں
ہو کے دنیا میں پھر جدا ہوں میں

خاکساری ہے میری جوہر ذات
خاک میں مثل کیمیا ہوں میں

در درج وفا کی آب ہوں میں
دل کے آئینے کی صفا ہوں میں

آج ہے میری دھاک عالم میں
روشناس شہ‌ و گدا ہوں میں

دھوم ہے فن شعر میں میری
قمر علم کی ضیا ہوں میں

لکھوں گر داستان رنج و الم
دل بشکستہ کی صدا ہوں میں

گر کروں ذکر ساز عیش و طرب
طوطئے خلد کی نوا ہوں میں

گر میں لکھوں بیان عرصہ رزم
ناوک‌ ترکش قضا ہوں میں

ایک اس نظم پر ہے کیا موقوف
نور شمع‌‌ علوم کا ہوں میں

قدر ہے میری قدر علم و ہنر
کیا زمانے میں دوسرا ہوں میں

ہوں تو سب کچھ پہ کچھ نہیں کیفیؔ
صورت موجۂ فنا ہوں میں