EN हिंदी
اک تیر نہیں کیا تری مژگاں کی صفوں میں | شیح شیری
ek tir nahin kya teri mizhgan ki safon mein

غزل

اک تیر نہیں کیا تری مژگاں کی صفوں میں

توصیف تبسم

;

اک تیر نہیں کیا تری مژگاں کی صفوں میں
بہہ جائیں لہو بن کے یہ حسرت ہے دلوں میں

دریا ہو تو موجوں میں کھلے اس کا سراپا
پاگل ہے ہوا چیختی پھرتی ہے بنوں میں

تیشے کی صدا میری ہی فریاد تھی گویا
میری ہی طرح تھا کوئی پتھر کی سلوں میں

یوں آج پھر اک حسرت ناکام پہ روئے
جیسے نہ تھے پہلے کبھی آزردہ دلوں میں

اب صبح سے تا شام ہے صدیوں کی مسافت
ہر لمحۂ بے قید ہے زنجیر دنوں میں

رستوں پہ امڈتا ہوا پھولوں کا سمندر
حیران ہوں کس طرح سمایا ہے گھروں میں

کھینچا تھا جنوں نے جسے دامان ہوا پر
دیکھا تو وہی شکل ہے مٹی کی تہوں میں

کیا ٹھیریں قدم دشت‌ نوردان‌ وفا کے
کانٹا تو نہیں پاؤں میں سودا ہے سروں میں

توصیفؔ وہ یادوں کا دھواں ہے کہ سر بزم
چہرے نظر آتے ہیں چراغوں کی لوؤں میں