EN हिंदी
اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے | شیح شیری
ek thakan quwwat-e-izhaar mein aa jati hai

غزل

اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے

اتل اجنبی

;

اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے
وقت کے ساتھ کمی پیار میں آ جاتی ہے

بس کہیں چھور سمندر کا نظر آ جائے
کوئی طاقت مری پتوار میں آ جاتی ہے

وہ گزرتا ہے تو کھلتے ہیں دریچے گھر کے
اک چمک سی در و دیوار میں آ جاتی ہے

ٹوٹے گھنگھرو کی جو آواز ہوا کرتی ہے
وہ کھنک کیوں مری گفتار میں آ جاتی ہے

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے ہونٹوں پر
خوشبوئے گل مرے اشعار میں آ جاتی ہے

ہر گھڑی اپنی تمناؤں سے لڑتے لڑتے
اک چمک چہرۂ خوددار میں آ جاتی ہے

جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے