اک تسلسل سے رائگانی ہے
زندگی بھی عجب کہانی ہے
سر میں سودا نیا سمایا ہے
دل میں وحشت وہی پرانی ہے
تجھ گلی میں غبار بن کے میاں
ہجر کی خاک ہم نے چھانی ہے
مجھ کو تحلیل کر دیا پل میں
کیا عجب مرگ ناگہانی ہے
دل میں ماتم کناں ہے حلقۂ غم
تیرے جانے کی سوز خوانی ہے
دشت امکاں تو ایک پل ہے مگر
پائے امکاں تو جاودانی ہے
کس قدر ہوں شکستہ پا پھر بھی
خود کو پانے کی پھر سے ٹھانی ہے
غزل
اک تسلسل سے رائگانی ہے
کامران ندیم