EN हिंदी
اک تسلسل سے رائگانی ہے | شیح شیری
ek tasalsul se raigani hai

غزل

اک تسلسل سے رائگانی ہے

کامران ندیم

;

اک تسلسل سے رائگانی ہے
زندگی بھی عجب کہانی ہے

سر میں سودا نیا سمایا ہے
دل میں وحشت وہی پرانی ہے

تجھ گلی میں غبار بن کے میاں
ہجر کی خاک ہم نے چھانی ہے

مجھ کو تحلیل کر دیا پل میں
کیا عجب مرگ ناگہانی ہے

دل میں ماتم کناں ہے حلقۂ غم
تیرے جانے کی سوز خوانی ہے

دشت امکاں تو ایک پل ہے مگر
پائے امکاں تو جاودانی ہے

کس قدر ہوں شکستہ پا پھر بھی
خود کو پانے کی پھر سے ٹھانی ہے