EN हिंदी
اک طرف طلب تیری اک طرف زمانہ ہے | شیح شیری
ek taraf talab teri ek taraf zamana hai

غزل

اک طرف طلب تیری اک طرف زمانہ ہے

شفیق احمد

;

اک طرف طلب تیری اک طرف زمانہ ہے
پوچھتا ہے دل مجھ سے کس طرف کو جانا ہے

میرے گھر وہ آئے گا آج گھر سجانا ہے
اس طرف کی چیزوں کو اس طرف لگانا ہے

نقش ہائے رنگیں کا اک نگار خانہ ہے
زندگی حقیقت ہے زندگی فسانہ ہے

جذبۂ جنون عشق گو بہت پرانا ہے
پھر بھی تازہ تر ہے یہ پھر بھی والہانہ ہے

پائیں گے خوشی بھی ہم رنج و غم بھی جھیلیں گے
اس جہان میں جب تک اپنا آب و دانہ ہے

دشمنوں کے طعنے ہیں دوستوں کی تنقیدیں
تیر سیکڑوں ہیں اور ایک دل نشانہ ہے

آتشیں ہے لہجہ بھی گفتگو بھی بارودی
سوچیے شفیقؔ اس سے کس طرح نبھانا ہے