اک طرف طلب تیری اک طرف زمانہ ہے
پوچھتا ہے دل مجھ سے کس طرف کو جانا ہے
میرے گھر وہ آئے گا آج گھر سجانا ہے
اس طرف کی چیزوں کو اس طرف لگانا ہے
نقش ہائے رنگیں کا اک نگار خانہ ہے
زندگی حقیقت ہے زندگی فسانہ ہے
جذبۂ جنون عشق گو بہت پرانا ہے
پھر بھی تازہ تر ہے یہ پھر بھی والہانہ ہے
پائیں گے خوشی بھی ہم رنج و غم بھی جھیلیں گے
اس جہان میں جب تک اپنا آب و دانہ ہے
دشمنوں کے طعنے ہیں دوستوں کی تنقیدیں
تیر سیکڑوں ہیں اور ایک دل نشانہ ہے
آتشیں ہے لہجہ بھی گفتگو بھی بارودی
سوچیے شفیقؔ اس سے کس طرح نبھانا ہے
غزل
اک طرف طلب تیری اک طرف زمانہ ہے
شفیق احمد