EN हिंदी
اک تبسم سے ہم نے روک لیے | شیح شیری
ek tabassum se humne rok liye

غزل

اک تبسم سے ہم نے روک لیے

شاعر لکھنوی

;

اک تبسم سے ہم نے روک لیے
وار جتنے غم جہاں نے کیے

کہہ رہے ہیں ہوا سے راز چمن
کوئی غنچوں کے بھی تو ہونٹ سیے

کیف کیا چیز ہے خمار ہے کیا
یہ سمجھ کر شراب کون پیے

ختم جب ہو گئیں تمنائیں
ہم نئے حوصلوں کے ساتھ جیے

رخ ہوا کا بدل گیا شاید
گھر کے باہر بھی جل رہے ہیں دیے

پھول خود ہو گئے گریباں چاک
موسم گل کے چاک کون سیے

اپنے دل پر سجا لیے شاعرؔ
زخم ہم کو جو اس نظر نے دیے