اک تبسم سے ہم نے روک لیے
وار جتنے غم جہاں نے کیے
کہہ رہے ہیں ہوا سے راز چمن
کوئی غنچوں کے بھی تو ہونٹ سیے
کیف کیا چیز ہے خمار ہے کیا
یہ سمجھ کر شراب کون پیے
ختم جب ہو گئیں تمنائیں
ہم نئے حوصلوں کے ساتھ جیے
رخ ہوا کا بدل گیا شاید
گھر کے باہر بھی جل رہے ہیں دیے
پھول خود ہو گئے گریباں چاک
موسم گل کے چاک کون سیے
اپنے دل پر سجا لیے شاعرؔ
زخم ہم کو جو اس نظر نے دیے
غزل
اک تبسم سے ہم نے روک لیے
شاعر لکھنوی