اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے
اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے
مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے
قاتل کی کہیں کمی نہیں ہے
ویرانوں سے آ رہی ہے آواز
تخلیق جنوں رکی نہیں ہے
ہے اور ہی کاروبار مستی
جی لینا تو زندگی نہیں ہے
ساقی سے جو جام لے نہ بڑھ کر
وہ تشنگی تشنگی نہیں ہے
عاشق کشی و فریب کاری
یہ شیوۂ دلبری نہیں ہے
بھوکوں کی نگاہ میں ہے بجلی
یہ برق ابھی گری نہیں ہے
دل میں جو جلائی تھی کسی نے
وہ شمع طرب بجھی نہیں ہے
اک دھوپ سی ہے جو زیر مژگاں
وہ آنکھ ابھی اٹھی نہیں ہے
ہیں کام بہت ابھی کہ دنیا
شائستۂ آدمی نہیں ہے
ہر رنگ کے آ چکے ہیں فرعون
لیکن یہ جبیں جھکی نہیں ہے
غزل
اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے
علی سردار جعفری