EN हिंदी
اک ستارہ جو آسمان میں ہے | شیح شیری
ek sitara jo aasman mein hai

غزل

اک ستارہ جو آسمان میں ہے

راشد قیوم انصر

;

اک ستارہ جو آسمان میں ہے
تیری سوچوں کے درمیان میں ہے

ماں کے قدموں میں جو سکوں ہے میاں
وہ زمیں پر نہ آسمان میں ہے

لفظ کڑوے ہیں تیرے لہجے کے
زہر کتنا تری زبان میں ہے

میرا کردار وہ نہیں لیکن
ذکر میرا بھی داستان میں ہے

تو ازل سے مری محبت ہے
تو ابد تک مرے دھیان میں ہے

دیکھ پتھر سے اب بھی رستا ہے
جانے کس کا لہو چٹان میں ہے

تیرے جانے کے بعد سے اب تک
اک اداسی مرے مکان میں ہے

اور بھی ہیں بہت حسیں انصرؔ
دل خوش فہم کس گمان میں ہے