اک شمع کی صورت میں منظور کیا جاؤں
اک گھر کی حفاظت پر مامور کیا جاؤں
اپنے سے بچھڑنے کی کچھ فکر نہیں لیکن
ایسا نہ ہو اس سے بھی اب دور کیا جاؤں
اک یاد سے مس ہو کر زنجیر پگھل جائے
اک گل کی محبت سے مخمور کیا جاؤں
ایسا نہ ہو دنیا کی وسعت سے نکلتے ہی
اپنے میں سمٹنے پر مجبور کیا جاؤں
اے رات اگر میں بھی اک تیرا ستارہ ہوں
سورج کے نکلتے ہی بے نور کیا جاؤں
ایسا ہو کہ اک لمحہ میری بھی گواہی دے
ایسا ہو کہ اک دل کا دستور کیا جاؤں
غزل
اک شمع کی صورت میں منظور کیا جاؤں
غلام حسین ساجد