اک شخص اپنے ہاتھ کی تحریر دے گیا
جیسے مرا نوشتۂ تقدیر دے گیا
اک دوست میرے قلب کی تالیف کے لیے
کچھ زہر میں بجھائے ہوئے تیر دے گیا
برسوں کے بعد اس سے ملاقات جب ہوئی
بیتے دنوں کی چند تصاویر دے گیا
گھیرے ہوئے تھی مجھ کو شب غم کی تیرگی
وہ مسکرا کے صبح کی تنویر دے گیا
چپکے سے رات آ کے مرے گھر کے صحن میں
اک چاند میرے خواب کی تعبیر دے گیا
میں اپنے اعتماد کا احسان مند ہوں
مجھ کو زمانے بھر میں جو توقیر دے گیا
وہ کون تھا کہاں کا تھا کیا اس کا نام تھا
راہیؔ جو تیرے شعروں کو تاثیر دے گیا
غزل
اک شخص اپنے ہاتھ کی تحریر دے گیا
اصغر راہی