EN हिंदी
اک شہر ضیا بار یہاں بھی ہے وہاں بھی | شیح شیری
ek shahr ziya-bar yahan bhi hai wahan bhi

غزل

اک شہر ضیا بار یہاں بھی ہے وہاں بھی

اشہر ہاشمی

;

اک شہر ضیا بار یہاں بھی ہے وہاں بھی
لیکن مرا آزار یہاں بھی وہاں بھی

روشن مرے اندر کے اندھیروں میں برابر
اک آتش پندار یہاں بھی ہے وہاں بھی

احباب مرے ایک ہی جیسے ہیں جہاں ہیں
اک جذبۂ ایثار یہاں بھی ہے وہاں بھی

اک صبح ترے ساتھ کئی میل چلے تھے
اس صبح کا اسرار یہاں بھی ہے وہاں بھی

گر ساتھ عزیزو نہ میسر ہو تمہارا
جینا مرا بے کار یہاں بھی ہے وہاں بھی

ہے جس کی روانی سے لہو گرم ہمارا
وہ چشمۂ بیدار یہاں بھی ہے وہاں بھی

آنکھوں سے مرے دل میں سمایا ہے جو اشہرؔ
اس شوخ کی سرکار یہاں بھی ہے وہاں بھی