اک شگفتہ گلاب جیسا تھا
وہ بہاروں کے خواب جیسا تھا
پڑھ لیا ہم نے حرف حرف اسے
اس کا چہرہ کتاب کیسا تھا
دور سے کچھ تھا اور قریب سے کچھ
ہر سہارا سراب جیسا تھا
ہم غریبوں کے واسطے ہر روز
ایک روز حساب جیسا تھا
کس قدر جلد اڑ گیا یارو
وقت رنگ شباب جیسا تھا
کیسے گزری ہے عمر کیا کہئے
لمحہ لمحہ عذاب جیسا تھا
زہر تھا زندگی کے ساغر میں
رنگ رنگ شراب جیسا تھا
کیا زمانہ تھا وہ زمانہ بھی
ہر گنہ جب ثواب جیسا تھا
کون گردانتا اسے قاتل
وہ تو عزت مآب جیسا تھا
بے حجابی کے باوجود بھی کچھ
اس کے رخ پر حجاب جیسا تھا
جب بھی چھیڑا تو اک فغاں نکلی
دل شکستہ رباب جیسا تھا
اس کے رخ پر نظر ٹھہر نہ سکی
وہ حفیظؔ آفتاب جیسا تھا
غزل
اک شگفتہ گلاب جیسا تھا
حفیظ بنارسی