اک سمندر شہر کو آغوش میں لیتا ہوا
اک سمندر تیرے میرے درمیاں پھیلا ہوا
ایک جنگل جس میں انساں کو درندوں سے ہے خوف
ایک جنگل جس میں انساں خود سے ہی سہما ہوا
ایک دریا جو بجھا دیتا ہے میدانوں کی پیاس
ایک دریا خواہشوں کی پیاس کا چڑھتا ہوا
ایک صحرا جس میں سناٹا بگولے اور سراب
ایک صحرا حسرتوں کی ریت بکھراتا ہوا
ایک موسم جو بدلتا ہے نظر کے پیرہن
ایک موسم مدتوں سے فکر پہ ٹھہرا ہوا
ایک گلشن ہے رتوں کے آنے جانے کا اسیر
ایک گلشن سب رتوں میں ذہن مہکاتا ہوا
غزل
اک سمندر شہر کو آغوش میں لیتا ہوا
محمود شام