EN हिंदी
اک سمندر کے حوالے سارے خط کرتا رہا | شیح شیری
ek samundar ke hawale sare KHat karta raha

غزل

اک سمندر کے حوالے سارے خط کرتا رہا

ولاس پنڈت مسافر

;

اک سمندر کے حوالے سارے خط کرتا رہا
وہ ہمارے ساتھ اپنے غم غلط کرتا رہا

کیا کسی بدلاؤ سے یہ زندگی بدلی کبھی
کیوں نئی وہ روز اپنی شخصیت کرتا رہا

اس کی تنہائی کا عالم دوستو مت پوچھیے
گھر کی ہر دیوار سے وہ مصلحت کرتا رہا

تھی خبر اب اپنے حق میں کچھ نہیں باقی رہا
جان کر میں کاغذوں پر دستخط کرتا رہا

ہاں اسے شاعر زمانہ کہہ رہا ہے ان دنوں
جو دوانہ اپنے غم کی تربیت کرتا رہا

آج سمجھا ٹھوکروں کے بعد بھی ہے زندگی
کیوں عطا مجھ کو مسافرؔ یہ صفت کرتا رہا