EN हिंदी
اک سیل بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت | شیح شیری
ek sail-e-be-panah ki surat rawan hai waqt

غزل

اک سیل بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت

عبد اللہ جاوید

;

اک سیل بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت
تنکے سمجھ رہے ہیں کہ وہم و گماں ہے وقت

پرکھو تو جیسے تیغ دو دم ہے کھنچی ہوئی
ٹالو تو ایک اڑتا ہوا سا دھواں ہے وقت

جو دل ہدف ہوا ہو وہ شاید بتا سکے
ناوک بھی آپ آپ ہی چڑھتی کماں ہے وقت

ہم اس کے ساتھ ہیں کہ وہ ہے اپنے ساتھ ساتھ
کس کو خبر کہ ہم ہیں رواں یا رواں ہے وقت

تاریخ کیا ہے وقت کے قدموں کی گرد ہے
قوموں کے اوج‌ و پست کی اک داستاں ہے وقت

اگلے سخن وروں نے جسے آسماں کہا
سچ پوچھئے تو آج وہی آسماں ہے وقت

ہمدم نہیں رفیق نہیں ہم نوا نہیں
لیکن ہمارا سب سے بڑا راز داں ہے وقت

کل کائنات اپنے جلو میں لئے ہوئے
جاویدؔ ہست و بود کا اک کارواں ہے وقت