اک سیل بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت
تنکے سمجھ رہے ہیں کہ وہم و گماں ہے وقت
پرکھو تو جیسے تیغ دو دم ہے کھنچی ہوئی
ٹالو تو ایک اڑتا ہوا سا دھواں ہے وقت
جو دل ہدف ہوا ہو وہ شاید بتا سکے
ناوک بھی آپ آپ ہی چڑھتی کماں ہے وقت
ہم اس کے ساتھ ہیں کہ وہ ہے اپنے ساتھ ساتھ
کس کو خبر کہ ہم ہیں رواں یا رواں ہے وقت
تاریخ کیا ہے وقت کے قدموں کی گرد ہے
قوموں کے اوج و پست کی اک داستاں ہے وقت
اگلے سخن وروں نے جسے آسماں کہا
سچ پوچھئے تو آج وہی آسماں ہے وقت
ہمدم نہیں رفیق نہیں ہم نوا نہیں
لیکن ہمارا سب سے بڑا راز داں ہے وقت
کل کائنات اپنے جلو میں لئے ہوئے
جاویدؔ ہست و بود کا اک کارواں ہے وقت
غزل
اک سیل بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت
عبد اللہ جاوید