اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے
یہ گماں ہے کہ ہم جیسے گھر آ گئے
وہ گیا ہے تو خوشیاں بھی ساری گئیں
شاخ دل پر خزاں کے ثمر آ گئے
لاکھ چاہو مگر پھر وہ رکتے نہیں
جن پرندوں کے بھی بال و پر آ گئے
ہم تو رستے پہ بیٹھے ہیں یہ سوچ کر
جو گئے تھے اگر لوٹ کر آ گئے
اس سے مل کے بھی کب اس سے مل پائے ہم
بیچ میں خواہشوں کے شجر آ گئے
اس نے اس پار اپنا بسیرا کیا
ہم نے دریا کو چھوڑا ادھر آ گئے
ایک دشمن سے ملنے گئے تھے مگر
اک محبت کے زیر اثر آ گئے
غزل
اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے
صابر وسیم