EN हिंदी
اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے | شیح شیری
ek safar par use bhej kar aa gae

غزل

اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے

صابر وسیم

;

اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے
یہ گماں ہے کہ ہم جیسے گھر آ گئے

وہ گیا ہے تو خوشیاں بھی ساری گئیں
شاخ دل پر خزاں کے ثمر آ گئے

لاکھ چاہو مگر پھر وہ رکتے نہیں
جن پرندوں کے بھی بال و پر آ گئے

ہم تو رستے پہ بیٹھے ہیں یہ سوچ کر
جو گئے تھے اگر لوٹ کر آ گئے

اس سے مل کے بھی کب اس سے مل پائے ہم
بیچ میں خواہشوں کے شجر آ گئے

اس نے اس پار اپنا بسیرا کیا
ہم نے دریا کو چھوڑا ادھر آ گئے

ایک دشمن سے ملنے گئے تھے مگر
اک محبت کے زیر اثر آ گئے