EN हिंदी
اک سایہ میرے جیسا ہے | شیح شیری
ek saya mere jaisa hai

غزل

اک سایہ میرے جیسا ہے

عین عرفان

;

اک سایہ میرے جیسا ہے
جو میرا پیچھا کرتا ہے

اب شور سے عاجز سناٹا
کانوں میں باتیں کرتا ہے

اک موڑ ہے رستے کے آگے
اس موڑ کے آگے رستہ ہے

میں ایک ٹھکانہ ڈھونڈتا ہوں
جو صحرا ہے نہ ہی دریا ہے

اک خواب کی وحشت ہے جس میں
خود کو ہی مرتے دیکھا ہے

یہ قصہ جھوٹ سہی لیکن
سننے میں اچھا لگتا ہے