اک سایہ میرے جیسا ہے
جو میرا پیچھا کرتا ہے
اب شور سے عاجز سناٹا
کانوں میں باتیں کرتا ہے
اک موڑ ہے رستے کے آگے
اس موڑ کے آگے رستہ ہے
میں ایک ٹھکانہ ڈھونڈتا ہوں
جو صحرا ہے نہ ہی دریا ہے
اک خواب کی وحشت ہے جس میں
خود کو ہی مرتے دیکھا ہے
یہ قصہ جھوٹ سہی لیکن
سننے میں اچھا لگتا ہے
غزل
اک سایہ میرے جیسا ہے
عین عرفان