EN हिंदी
اک روز جو گلشن میں وہ جان بہار آئے | شیح شیری
ek rose jo gulshan mein wo jaan-e-bahaar aae

غزل

اک روز جو گلشن میں وہ جان بہار آئے

حامد الہ آبادی

;

اک روز جو گلشن میں وہ جان بہار آئے
کلیوں پہ شباب آئے پھولوں پہ نکھار آئے

نظروں کے تصادم میں تھیں ضبط کی تاکیدیں
کیا جانے سمجھ کر گیا ہم دل کو بھی ہار آئے

احساس تکبر میں حد سے نہ گزر جائیں
شاید اسی مطلب سے پھولوں میں بھی خار آئے

توبہ کے تقدس کا قائل تو ہوں میں لیکن
پیمانہ بڑھا دینا جب ابر بہار آئے

اچھا ہوا حامدؔ کا دنیا سے گزر جانا
اک بوجھ تھا جو سر سے احباب اتار آئے