EN हिंदी
اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے | شیح شیری
ek ranj-e-umr de ke chala hai kidhar mujhe

غزل

اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے

نجیب احمد

;

اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے
گلیوں میں رول دیں نہ مرے بال و پر مجھے

دل پربتوں کے پار نہ چل دے ہوا کے ساتھ
بادل بنا نہ دے مری خوئے سفر مجھے

میں نے جنہیں چھوا انہیں شہکار کر دیا
اے کاش چھو سکے مرا دست ہنر مجھے

تم سے بچھڑ کے عمر بھر اک سوچ ہی رہی
کیا ہو تم ایک روز بھلا دو اگر مجھے

بے برگ و بار کر گئی آندھی مرا بدن
خوش تھا یہ سوچ کر کہ لگے ہیں ثمر مجھے

اے دشت دار دیکھ چمن زار کی طرف
پگ پگ پکارتے ہیں مرے ہم سفر مجھے

آزاد کر نجیبؔ گرفتار رمز کو
رنگوں میں کھول اے مرے رنگ ہنر مجھے