EN हिंदी
اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں | شیح شیری
ek raat hum aise milen jab dhyan mein sae na hon

غزل

اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں

ساقی فاروقی

;

اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
جسموں کی رسم و راہ میں روحوں کے سناٹے نہ ہوں

ہم بھی بہت مشکل نہ ہوں تو بھی بہت آساں نہ ہو
خوابوں کی زنجیریں نہ ہوں رازوں کے ویرانے نہ ہوں

اے کاش ایسا کر سکیں آنکھوں کو زندہ کر سکیں
یہ کیا کہ دل میں گرد ہو آنکھوں میں آئینے نہ ہوں

ہیں تیز دنیا کے قدم شاید سجل چل پائیں ہم
اس بیسوا رفتار میں یادوں سے کیوں رشتے نہ ہوں

شوق فراواں سے پرے لذت کے زنداں سے پرے
اس آگ میں سلگیں ذرا جس میں کبھی سلگے نہ ہوں