اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
جسموں کی رسم و راہ میں روحوں کے سناٹے نہ ہوں
ہم بھی بہت مشکل نہ ہوں تو بھی بہت آساں نہ ہو
خوابوں کی زنجیریں نہ ہوں رازوں کے ویرانے نہ ہوں
اے کاش ایسا کر سکیں آنکھوں کو زندہ کر سکیں
یہ کیا کہ دل میں گرد ہو آنکھوں میں آئینے نہ ہوں
ہیں تیز دنیا کے قدم شاید سجل چل پائیں ہم
اس بیسوا رفتار میں یادوں سے کیوں رشتے نہ ہوں
شوق فراواں سے پرے لذت کے زنداں سے پرے
اس آگ میں سلگیں ذرا جس میں کبھی سلگے نہ ہوں
غزل
اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
ساقی فاروقی