اک قرب جو قربت کو رسائی نہیں دیتا
اک فاصلہ احساس جدائی نہیں دیتا
اک تیرگی دیتی ہے بصارت کے قرینے
اک روشنی وہ جس میں سجھائی نہیں دیتا
اک قید ہے آزادیٔ افکار بھی گویا
اک دام جو اڑنے سے رہائی نہیں دیتا
اک آہ خطا گریہ بہ لب صبح ازل سے
اک در ہے جو توبہ کو رسائی نہیں دیتا
اک شوق بڑائی کا اگر حد سے گزر جائے
پھر ''میں'' کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا
مت پوچھیے چالاکیاں میری کہ مرا عیب
اب اہل نظر کو بھی دکھائی نہیں دیتا
غزل
اک قرب جو قربت کو رسائی نہیں دیتا
ندیم فاضلی