اک قصۂ طویل ہے افسانہ دشت کا
آخر کہیں تو ختم ہو ویرانہ دشت کا
مجھ کو بھی غرق بحر تماشا میں کر دیا
اب حد سے بڑھتا جاتا ہے دیوانہ دشت کا
تعویذ آب کے سوا چارہ نہیں کوئی
آسیب تشنگی سے ہے یارانہ دشت کا
تو نے شکست کھائی محاذ قیام پر
اب سکۂ سفر میں دے ہرجانہ دشت کا
ہوتا نہیں جو خالی کبھی جام آفتاب
دن بھر ہی گرم رہتا ہے مے خانہ دشت کا
اب ظلمتوں کا خوف نہیں خاک شہر کی
روشن ہے شمع ریگ سے کاشانہ دشت کا
آداب منصفی سے میں واقف نہیں حسنؔ
شہر خطا میں کرتا ہوں جرمانہ دشت کا
غزل
اک قصۂ طویل ہے افسانہ دشت کا
حسن عزیز