اک قیامت ہے جوانی اک قیامت ہے شباب
ہر تبسم ایک طوفاں ہر نظر اک انقلاب
ہر طرف ایک آہ و زاری ہر طرف ایک اضطراب
کتنی سوغاتیں لیے آیا ہے دور انقلاب
ساغر و مینا پٹک دے توڑ دے چنگ و رباب
دیکھ سر پر آ چکا ہے فتاب انقلاب
عشق کے دستور دنیا سے الگ دستور ہیں
اس کی گمنامی میں شہرت اس کی خاموشی جواب
اے مری نظروں کی جنت کیا تجھے معلوم ہے
کس کے صدقے ہو رہے ہیں آفتاب و ماہتاب
میں تو کہتا ہوں خدا کا شکر کرنا چاہیے
جان دے کر بھی جو ہو جائے محبت کامیاب
اے دل غم آشنا اب تو وہ ہم سے چھٹ گئے
اور کیا اس سے زیادہ ہوگا کوئی انقلاب
ان سے باتیں کر رہا ہوں وہ کھڑے ہیں سامنے
جاگتا رہتا ہوں لیکن دیکھتا رہتا ہوں خواب
بندشیں دونوں طرف پابندیاں دونوں طرف
ایک پابند محبت ایک پابند حجاب
مجھ کو اے شاربؔ فشار قبر کا کیا خوف ہو
میں غلام شاہ یثرب میں غلام بو تراب
غزل
اک قیامت ہے جوانی اک قیامت ہے شباب
شارب لکھنوی