اک قدم اٹھ گیا روانی میں
درد پھر آ گیا کہانی میں
کوئی تو چاند کو سکھاتا ہے
ڈوبنا روز روز پانی میں
صرف تو نے نگاہ پھیری ہے
موڑ سا آ گیا کہانی میں
اس کی آنکھوں میں ڈوب کر دیکھا
تشنگی بڑھ گئی ہے پانی میں
کچھ دیئے رات بھر رہے روشن
ایک جگنو کی میزبانی میں
میں اکیلا کھڑا تھا سچ کے ساتھ
مجھ کو مرنا ہی تھا کہانی میں
غزل
اک قدم اٹھ گیا روانی میں
اسلم راشد